حوزہ نیوز ایجنسی I تاریخ دانوں کی روایت کے مطابق، سیستان کے باوفا اور غیرتمند عوام نے جب امام حسین علیہ السلام اور ان کے وفادار اصحاب کی شہادت کی خبر سنی، تو اس ظلم پر خاموش نہ رہے۔ انہوں نے اس وقت کے سیستانی گورنر، جو کہ بنی امیہ کی طرف سے مقرر کیا گیا تھا، کے خلاف قیام کیا، اُسے حکومت سے معزول کر دیا اور اسے فرار پر مجبور کر دیا۔ یہ قیام، واقعہ کربلا کے صرف دو ماہ بعد پیش آیا، جبکہ توّابین کا قیام تقریباً تین سال بعد اور مختار ثقفی کا قیام تقریباً پانچ سال بعد وقوع پذیر ہوا۔
اگرچہ ہمیں درست اندازہ نہیں کہ کربلا کے دلخراش واقعے اور اسیرانِ اہل بیتؑ کی شام روانگی کی خبر ایران کے مختلف شہروں بالخصوص سیستان تک کب پہنچی، لیکن تاریخی شہادت یہ دیتی ہے کہ بنی امیہ کے خلاف سب سے پہلا عوامی قیام سیستان ہی میں رونما ہوا، اور وہ بھی کربلا کے واقعے کے صرف چند ہی مہینوں بعد۔
تاریخ سیستان کے مؤلف کا بیان
تاریخ سیستان کے مصنف لکھتے ہیں:کربلا میں امام حسینؑ کی مظلومانہ شہادت اور اہل بیت رسولؐ و امیرالمومنینؑ کی اسیری کی خبر جب عالم اسلام میں پھیلی، تو سیستان کے عوام نے یہ خبر سنتے ہی یزید بن معاویہ اور اس کے گورنر عباد بن زیاد (جو عبیداللہ بن زیاد کا بھائی تھا) کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔
اگرچہ عباد بن زیاد کے پاس لشکر، پولیس اور عدالتی نظام جیسے تمام وسائل موجود تھے اور وہ سیاسی لحاظ سے طاقتور تھا، لیکن جب کچھ لوگوں نے قیام کا آغاز کیا تو اس نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بیس لاکھ درہم کے بیت المال کے خزانے کو لے کر فرار کو ترجیح دی۔ یوں سیستان کئی مہینے تک بغیر کسی والی کے رہا۔
واضح ہے کہ اگر عباد بن زیاد فرار نہ کرتا اور وہیں رہتا تو عوام کے غیظ و غضب کا نشانہ بن کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ کچھ عرصہ بعد، عبیداللہ بن زیاد نے اپنے دو اور بھائیوں، یزید بن زیاد اور ابوعبیدہ بن زیاد کو سیستان بھیجا تاکہ حکومت سنبھالیں۔ انہوں نے حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے نرم رویہ اختیار کیا اور عوام کے ساتھ مصالحت کی تاکہ وہ اپنے اقتدار کو قائم رکھ سکیں۔
سیستان کے عوام کی ولایتِ علیؑ سے وابستگی
سیستان کے لوگ اسلام قبول کرنے کے بعد ہمیشہ راہِ خدا اور ولایتِ علیؑ میں پیش پیش رہے اور انہوں نے اپنی شجاعت اور وفاداری کی روشن مثالیں تاریخ میں ثبت کیں۔ مؤلف تاریخ سیستان مزید لکھتے ہیں کہ عثمان کے دورِ خلافت میں سیستان کا گورنر "عبدالرحمن بن سمرہ بن حبیب" تھا۔ جب حضرت علیؑ کی خلافت کا آغاز ہوا تو یہ شخص بیت المال کا مال لے کر معاویہ سے جا ملا۔
اس پر امام علیؑ نے "عبدالرحمن بن جرو الطائی" کو سیستان کا گورنر مقرر کیا۔ جب صفین کی جنگ شروع ہوئی تو عبدالرحمن طائی امام علیؑ کی مدد کے لیے واپس آگئے، اور اس موقع پر معاویہ نے فائدہ اٹھا کر عبدالرحمن بن سمرہ کو دوبارہ سیستان بھیجا۔
مگر سیستان کے عوام نے اس کا استقبال کرنے سے انکار کر دیا۔ علماء اور بزرگان شہر نے صاف کہا: "ہم ایسے رہنما کو قبول نہیں کریں گے جو سنتِ رسولؐ اور سیرتِ علیؑ پر نہ ہو۔"
اس کے بعد امیرالمومنینؑ نے باری باری مختلف گورنر سیستان بھیجے تاکہ حکومت قائم رکھیں۔ عبدالرحمن بن جرو کی شہادت کے بعد امامؑ نے عون بن جعدہ کو بھیجا، لیکن وہ راستے میں قتل کر دیے گئے۔ امامؑ نے پھر بصرہ کے گورنر، عبداللہ بن عباس کو حکم دیا کہ کوئی شخص سیستان بھیجے۔ چنانچہ انہوں نے ربعی بن کاس، حصین بن ابی الحر، اور ثابت بن ذی حرہ کو چار ہزار افراد کے ساتھ سیستان روانہ کیا، جنہوں نے حکومت سنبھال لی۔
معاویہ کی مداخلت کے باوجود عوام کا یہ ردِ عمل اور استقامت اس بات کی دلیل ہے کہ سیستان کے لوگ ابتداء ہی سے امیرالمومنینؑ اور اہل بیتؑ کے سچے حامی اور پیروکار تھے۔
امیرالمومنین حضرت علیؑ پر سبّ و شتم سے سیستان کے عوام کا انکار
سیستان کے عوام کا ایک بڑا دینی اور تاریخی افتخار یہ ہے کہ جب سن ۴۱ ہجری قمری میں معاویہ نے تمام اسلامی علاقوں کے خطباء اور جمعہ کے اماموں کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے خطبوں میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام پر لعن کریں، تو سیستان کے غیرتمند اور باایمان لوگوں نے اس ذلت آمیز حکم کو قبول کرنے سے سختی سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس انکار کو اموی حکمرانوں کے ساتھ کیے جانے والے صلح کے معاہدے میں بھی شامل کر دیا۔
حالانکہ اس وقت سیستان پر زیاد بن ابیہ کے خاندان کی حکومت تھی، جو کہ معاویہ کی طرف سے مقرر کردہ حکمران تھے، مگر پھر بھی سیستان کے لوگوں نے اس شرمناک عمل میں شرکت نہ کی، اور ان کے مسلسل انکار پر حکمرانوں کو مجبوراً انہیں آزادی دینی پڑی۔
مشہور مؤرخ زکریا بن محمد قزوینی (متوفیٰ ۶۸۲ ہجری) لکھتے ہیں:"سجستان (سیستان) کے لوگ عقیدے کے لحاظ سے نیک اور پاکیزہ ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جب بنی امیہ کا دور تھا اور علی علیہ السلام پر سب و شتم واجب قرار دیا گیا تھا، تو ان لوگوں نے اس حکم کو ماننے سے پوری شدت کے ساتھ انکار کر دیا اور کبھی بھی اس قبیح عمل کے مرتکب نہیں ہوئے۔"
یقیناً اموی حکمرانوں کے اس دباؤ کے مقابلے میں سیستان کے عوام کی یہ جرات مندانہ اور غیرت مندانہ مزاحمت اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ شروع سے ہی اہل بیت علیہم السلام سے محبت رکھنے والے، شیعہ اور وفادار رہے ہیں۔









آپ کا تبصرہ